پچھلا جمعہ مالا کنڈ کا پچھلے کئی مہینوں کا خونی ترین دن ثابت ہوا .میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دن دیر نے اکیس تابوت اٹھائے .
لوئر اور اپر دیر میں یہ تابوت افغانستان کے صوبے خوست سے آئے .جہاں پر امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ،ایک دہشتگردوں کے ٹریننگ کیمپ میں خود کش بمباری کی ٹریننگ حاصل کرتے ہوے یہ پاکستانی ہلاک ہوئے .خوست کے گورنر کے مطابق ہلاک شدہ پاکستانیوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے .
مقامی افراد کے مطابق یہ تابوت ،البدر تنظیم کے پرچم میں لپٹے ہوئے تھے .کچھ لاشیں تو صرف جسم کے چند حصوں پر مشتمل تھیں .اس خبر کے بعد یہ نیوز مکمل اندھیرے میں چلی گئی .پرنٹ میڈیا پر بھی صرف انگلش اخبارات میں اس کی خبر چھپی .ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے “سیلف سنسر شپ ” کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر کوئی خبر نہیں دی ،سیلف سنسر شپ اس لئے کہ کسی ریاستی ادارے نے سنسر شپ کے احکامات جاری نہیں کئے ہوئے ہیں . عام طور پر چیختے چنگھاڑتے اینکرز نے اس موضوع پر اپنے لب سی لئے .
اگر آپ البدر کی تاریخ پڑھیں تو اس خاموشی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے .اس نام کا گروپ انیس سو اکہتر میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی “پرا کسی” کے طور پر بنگالیوں کی “مکتی باہنی” جو کہ انڈیا کی پراکسی تھی کے خلاف استمعال ہوا تھا .مشرقی پاکستان اس وقت ان ڈان تنظیموں کی لڑائی کا اکھاڑا بن گیا جب بنگالی عوام کے پاکستان سے لاتعلقی کے جذبات نے اسکو فروغ دیا .مکتی باہنی اور البدر بمع اسکی ذیلی تنظیم الشمس نے اس دور میں سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا .
حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے چیپٹر نمبر دو کے نکتہ نمبر میں اٹھائیس میں لکھا ہے کہ
“ہمیں پاکستان آرمی کی جانب سے بنگالی دانشوروں اور پروفیشنلز کے قتل عام کا کوئی ثبوت نہیں ملا .اگر بنگلہ دیش حکومت کے پاس اسکا کوئی ثبوت ہے تو مہیا کرے “مگر اسی صفحے کے آخر میں اس بھوت کا ذکر ہے جس نے بنگلادیشی دانشوروں اور پروفیشنلز کا قتل کیا جس کا الزام پاکستان آرمی پر لگایا جاتا رہا جو اس وقت کے مشرقی پاکستان میں تعنیات تھی .کچھ یوں لکھا تھا کہ
” اب یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ اتوار بارہ دسمبر انیس سو اکہتر کو انڈین آرمی ڈھاکہ کے قریب پہنچ چکی تھی ،اس وقت پاکستان کے آرمی افسران اور انکے حامی سولین حمایتیوں کی صدارتی آفس میں ملاقات ہوتی ہے .یہ دونوں مل کر دو سو پچاس ایسے دانشوروں اور پروفیشنلز کے ناموں کی لسٹ بناتے ہیں جو کہ ڈھاکہ کی “کریم” ہے اور انہیں گرفتار یا ہلاک کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں .یہ گرفتاریاں پیر اور منگل کو سرکاری سر پرستی میں چلنے والی البدر تنظیم کے زیر عمل ہو جاتی ہیں .سرکاری ہتھیار ڈالنے کے اعلان سے صرف ایک دن قبل ،البدر ان لوگوں کو گروپس میں تقسیم کر کے انکا قتل عام کر دیتی ہے “
گو کہ ان اکیس لاشوں کی خبر تو ہمارے میڈیا کی سکرینوں پر نہ چمک سکی .مگر جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں کی ہلاکت کی خبر ،اس پر گرما گرم مباحثہ اور ان لیڈرز کے حق میں بیانات ،اور ہیڈلاینز خوب زور شور سے جگمگاتی رہی کیونکہ میڈیا میں اینکرز کی اکثریت پرو جماعت اسلامی ہے یا اکثر محب وطن بنانے کے شوق میں یہ سب کر رہے تھے . دلیل یہ تھی یہ لیڈرز جو پھانسی چڑھے پرو پاکستانی تھے .یہ بات تو ماننی چاہئے کہ ہر انسان کو “فیئر ٹرائل ” کا حق ملنا چاہئے ،چاہے اسکا تعلق بنگلہ دیش سے ہو ،بلوچستان سے ،سعودی عرب سے ہو یا ایران سے ہو .
البدر کی جانب واپس چلتے ہیں .1971 کے جنگی جرائم کے الزامات کے بعد یہ گروپ منظر نامے سے غائب ہو جاتا ہے .لیکن اچانک 1985 میں ایک بار پھر جماعت اسلامی کے بینر تلے افغان جہاد میں یہ تنظیم ایکٹو ہو جاتی ہے .افغان جہاد کے ہی دنوں میں البدر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی میں ضم ہو جاتی ہے .بعد میں مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے دوران یہ حزب المجاہدین کے نام سے کام کرتی ہے .اس وقت البدر کے ممبران “مجاہدین” اور اب “دہشتگردوں ” کے نام سے سے پکارے جاتے ہیں .انیس سو نواسی میں امریکا اس گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے .
لیکن ٹریننگ کیمپس طالبان کے دور میں افغان زمین پر جاری رہتے ہیں .اس دوران پاکستان میں صوبہ سرحد اور اب پختون خوا میں بھی ٹریننگ کیمپس مانسہرہ کے علاقوں میں قائم رہتے ہیں .انیس سو اٹھانوے میں جا کر کہیں بخت زمین اس تنظیم کو دوبارہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگا کر کھڑا کر دیتے ہیں .عجیب بات یہ ہے کہ البدر کے اکثر کارکن خود کشمیری نہیں تھے اور نہ ہی بخت زمین کشمیری تھے ہاں اسکے بانی لیڈران میں سے شمار کئے جانے والے عارفین جو جانثار اور لقمان کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں وہ نسلا کشمیری تھے .انکا تعلق آزاد جموں کشمیر سے تھا .
2002 میں یہ گروپ اب امریکن اور نیٹو افواج کے خلاف افغانستان کو آزاد کرانے کا مشن پر جت جاتا ہے .اسکے ساتھ ساتھ یہ اسرائیل اور تمام اتحادی ممالک کے خلاف بھی جہاد کا اعلان کر دیتا ہے .یہ بات بھی یاد رہے کہ افغان طالبان کی طرح البدر نے کبھی پاکستان آرمی کے خلاف کسی لڑائی میں حصہ نہیں لیا .بلکہ البدر کے حلقے تو کارگل کی جنگ میں پاکستان آرمی کے ساتھ لڑنے اور انڈین آرمی کو نقصان پہنچانے کے دعوے کرتے رہے .
ایک بات یا لنک جو اس سارے عرصے میں یکساں رہا ہے وہ جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ ہے .بلکہ کئی بار تو البدر تنظیم ، القاعدہ ،تحریک طالبان پاکستان ،اور لشکر طیبہ کے پاکستان میں “تسلیم شدہ” سیاسی اور سوشل گروپس جماعت اسلامی ،اور جماعت الدعوہ میں رابطے کا واسطہ رہے .تحریک طالبان کا چیف ملا فضل الله جماعت اسلامی کا رکن رہا تھا .بعد میں اس نے اپنی تنظیم تحریک نفاذ شہریت شریعت محمدی بنا لی تھی .
القاعدہ کے کئی سرگرم رکن جماعت اسلامی کے لیڈران کے گھروں سے برآمد ہوئے .2004 میں القاعدہ کا نمبر تھری خالد شیخ محمد جماعت اسلامی کی ایک خاتون ونگ لیڈر کے روالپنڈی کے ایک گھر سے گرفتار ہوا .اسی طرح ابو زبیدہ بھی بھی اسی سال پکڑا گیا جیسا لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ نے پناہ مہیا کر رکھی تھی .
ابھی حال ہی میں ستمبر 2013 میں القاعدہ کا ایک رکن جو فدائین کی ٹریننگ کے بعد لاہور آیا تھا ،پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر ایک کے کمرہ نمبر 237 سے اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم لاہور ،احمد سجاد کے نام سے الاٹ تھا ، جو کہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم ہے ،اس سے پکڑا گیا .
جماعت اسلامی کے سابق امیر اکثر پاک فوج کے خلاف اور تحریک طالبان کے حق میں بیانات دیتے رہے .بلکہ انہوں نے تو خود کش حملوں کے خلاف بیان دینے سے بھی انکار کر دیا تھا .
طویل کہانی کو مختصر کریں تو جماعت اسلامی کے لیڈرز جن کے گھروں سے پاکستانی عوام اور فوجیوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد پکڑے گئے ،جماعت الدعوہ اور لشکر طیبہ جن کے القاعدہ اور تحریک طالبان سے تعلقات ہیں ،انکے سپورٹر جیسے ملا عبدلعزیز وغیرہ یہ سب کھلے عام دند ناتے پھر رہے ہیں .یہ کبھی ملک کے خلاف بیانات دیتے ہیں تو کبھی رٹ توڑتے ہیں مگر انکے خلاف کوئی کاروائی کی آواز بھی بلند نہیں کر سکتا .
لوئر اور اپر دیر میں اکیس نوجوانوں کے قاتل یہ جبری تنظیمیں ہمارے نوجوانوں کو جہاد کے نام پر مروا رہی ہیں .انکے خلاف کسی قسم کی کاروائی فی الوقت ایک دیوانے کا خواب ہے
Originally published by The Nation on 24 November 2015